اپنی بات
امجد صدیقی
کچھ لکھنے سے پہلے میری رب کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو کسی بھی طرح کی ذہنی وجسمانی معذوری سے محفوظ رکھے اور جو لوگ اللہ کی رحمت سے صحیح سلامت ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی ان لازوال نعمتوں کا شکر اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ زندگی ہر حال میں امتحان ہے……زندگی آزمائش……جدوجہد……اور تلخ وشیریں حقائق کا نام ہے۔ہر شخص کو آزمائش کی بھٹی سے گزرناپڑتا ہے …… کچھ افراد آزمائش میں ثابت قدم نہیں رہ پاتے ……جو صبراور توکل کو ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں……آزمائش انہیں دھول اور مٹی بنا ڈالتی ہے……زمانہ انہیں پاؤں کی ٹھوکروں سے کچل ڈالتا ہے ……اوروقت کے بے رحم تھپیڑے انہیں ریت کے ذروں کی طرح ہواؤں میں اڑا دیتے ہیں……اورکچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جوآزمائش کی بھٹی سے ایک نئی آب وتاب لئے کندن بن کر نکلتے ہیں……صبر اوررضا ان کا ہتھیار ہوتا ہے ……استقامت اور اولوالعزمی ان کا شعار ہوتا ہے……گردشِ ایام انہیں مزید صیقل و مضبوط بنا دیتی ہے……وقت کا دھارا ان کے سامنے رخ موڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے…… زمانہ ان کے قدموں میں نچھاور ہوتا ہے…… اور کامیابی کی دیوی بانہیں پھیلا کر ان کااستقبال کرتی ہے۔
میں کیسے معذور ہوا ،میرے ساتھ کیا ہوا اور پھر میں اس صورتحال سے کیسے نبردآزما ہوا یہ تو آپ آنے والے صفحات میں پڑھ ہی لیں گے لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ معذور افراد کی زندگی کی تکالیف ان کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس امتحان سے ان کے والدین دوستوں، رشتہ داروں اور معاشرے کو بھی گزرنا پڑتا ہے۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں معذورافرادکو انتہائی کمتر اور گھٹیا مخلوق سمجھا جاتا ہے،انہیں عزت دینے کی بجائے ان سے نفرت کی جاتی ہے،ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان پر جملے کسے جاتے ہیں اوران کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے،ان سے ہمدردی کرنے کی بجائے انہیں حقارت سے دھتکار دیا جاتا ہے۔عوام کامعاملہ تو بہت دور کی بات ہے ہماری حکومتیں بھی معذور افراد کو برابر کا شہری نہیں سمجھتیں حکومتی سطح پر بھی معذوروں کے لئے بے حسی کا عالم ہے اگر معذور افراد کو کسی مسئلے کے لئے کسی سرکاری ادارے کے تعاون کی ضرورت پڑجائے توانہیں ذلت وخواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ 40سالوں کے دوران مجھے کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا ،کس طرح حالات کی ستم ظریفی کا مقابلہ کرنا پڑا،معاشرتی رویے جو درحقیقت طوفانِ مخالف کی مانند ہوتے ہیں مجھے کس طرح ان طوفانوں سے ٹکرانا پڑا،جہاں قدم قدم پر معذوروں کوحقارت اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں کس طرح اپنی عزت کی حفاظت کے لئے جتن کرناپڑے مگر اس کے باوجود کئی باربے رحم معاشرے کے ہاتھوں عزت نفس مجروح ہوئی،لوگوں کی نفرت اور حقارت کے نئے نئے انداز کا سامنا کرنا پڑا، معذور کی زندگی صحرا کی تپتی ریت اوردہکتے کوئلوں کی مثال ہے جس پر مجھے اکیلے ہی چلنا پڑا۔لوگوں کی خود غرضی،لالچ،بے رحمی اورزبان کی کڑواہٹ کو مسکرا کر سہنے کے لئے کس طرح خود پر جبر کرناپڑاان تلخ ترین تجربات پر مبنی سچے واقعات اس کتاب میں آپ پڑھ سکیں گے۔
مجھے کھلتی جوانی میں معذوری کی شکل میں ایک ایسا درد ملاجس نے مجھے اندر اور باہر سے توڑ پھوڑ دیا تھا جس نے مجھے طوفان کے بیچ تنہا لا کھڑا کیا تھا،مجھے ایسے لگتا تھا سمندر کے بیچوں بیچ میرا سفینہ غرقاب ہوگیا ہے اور میں اکیلا گہرے سمندر میں غوطے کھا رہا ہوں۔المختصر یہ ایک ایسی آزمائش تھی جس میں سے اللہ کی مدد کے ساتھ ہی نکلا جاسکتا تھا چنانچہ میں نے صبر،شکراوراستقامت کا راستہ اختیار کیا جس سے میری زندگی کے بند راستے ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے پھر میں نے سخت محنت،دیانت داری ،خودداری اورایفائے عہد کواصول ِ زندگی بنایااورمیں تیزی سے کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا۔ میرا کتاب لکھنے کا مقصد اپنی تعریف یا خود نمائی کرنا ہرگز نہیں بلکہ یہ کتاب ایک پیغام ہے……ایک ولولہ ……ایک عزم ……ایک حوصلہ ……ایک امید…… اور ایک کرن ہے ایسے لوگوں کے لئے جو زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں،جو حالات سے دلبرداشتہ ہیں،جواپنوں اورپرایوں کے ستائے ہوئے ہیں،جنہیں زمانے میں نفرت اور غربت کے سوا کچھ نہیں ملا،جنہیں پریشانیوں اورمشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا……یہ کتاب تازیانہ ہے ایسے لوگوں کے لئے جن کی زندگی سستی ،کاہلی،کم ہمتی اور سہل پسندی کی وجہ سے ناکامیوں کا مجموعہ بن چکی ہے مگر وہ اسے اپنا مقدر سمجھ کر مایوس اور پریشان ہیں …… یہ کتاب درسِ عبرت ہے ایسے لوگوں کے لئے جو کسی معذوری کا شکار ہیں اور اس کو اپنی قسمت سمجھ کر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں یا پھرغموں اور دکھوں سے چور ہوکر خداکی دی ہوئی زندگی کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ‘‘ ہمت مرداں مددِ خدا’’ اور‘‘ جہاں چاہ وہاں راہ’’ یہ مثالیں ہم جیسے کمزور انسانوں کو حوصلہ دینے کے لئے ہی ہیں کم از کم میں نے توان مثالوں کو اپنی زندگی کے اصولوں میں شامل کیا اور پھر اللہ کی مدد سے نئی سے نئی راہیں کھلتی چلی گئیں۔
میں پچھلے چالیس سالوں سے مختلف فورمز پر اور معذوروں کے ہسپتالوں میں موٹیویشنل لیکچرز دے رہا ہوں اور سالہا سال سے ہسپتالوں میں پڑے ہوئے مریضوں کو عملی زندگی میں لانے کی کوشش کررہا ہوں یہ کتاب بھی اسی کوشش کا ایک حصہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر میری اس کتاب کو پڑھ کر ایک شخص کی زندگی میں بھی تبدیلی آجاتی ہے تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی۔میرا نوے فیصد جسم مفلوج ہے میرا صرف سینے سے اوپر کا حصہ کام کرتا ہے اور اس سے نیچے ہر طرح کی حِس بھی ختم ہے،اللہ کی مدد اور محنت سے اگر میں کامیاب زندگی گزار سکتا ہوں تو کوئی اور کیوں نہیں گزارسکتا مجھے کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوئے بات صرف ہمت،حوصلے اور لگن کی ہے۔
آپ ‘‘ درد کا سفر’’ میں پڑھیں گے کہ میں نے کس طرح ویل چیئر پرمختلف ممالک کا سفر کیا،کاروبار کو کس طرح کامیابی سے چلایااور پہاڑ جیسی مشکلات پر کیسے قابو پایا……یقینا یہ کتاب ایک سبق ہے ……ایک نصیحت ہے……اورایک عبرت ہے اگر کوئی سمجھے۔میں کوئی بہت بڑا لکھاری یاادیب نہیں ہوں شاید آپ کو کتاب میں ادب کی چاشنی اور تحریر کی دلکشی نہ مل سکے لیکن پھر بھی میں نے کوشش کی ہے کہ کتاب سے آپ کو بوریت نہ ہو ،کتاب میں کچھ مضامین یا واقعات ایک جیسے ہی ہیں لیکن ہر ایک میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور موجود ہے،اس لئے اپنے پیارے قارئین سے امید کرتا ہوں کہ وہ ادبی اور فنی غلطیوں سے درگزر فرمائیں گے اور کتاب کے مقصد کو مقدم سمجھیں گے۔میں نے کتاب کی دلچسپی برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن اس کے لئے غیر ضروری طورپر لفاضی کا سہارا نہیں بلکہ میں نے ان چیزوں سے پرہیز کیا ہے تاکہ صرف سچ اور حقیقت ہی لوگوں کو پڑھنے کو مل سکے اور الحمدللہ یہ ایک سچی داستان ہے۔اس کے باوجود اگر کہیں آپ کو الفاظ کی کمی یا زیادتی محسوس ہویا کوئی بات ناقابل یقین لگے تو اس کے لئے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔میں نے کتاب میں بہت سے ایسے تلخ حقائق بھی بیان کئے ہیں جن کا تعلق اپنوں یابیگانوں سے ہے لیکن میری کوشش ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو تاہم پھر بھی کسی کو میری کوئی بات ناگوار گزرے تو میں معذرت خواہ ہوں۔
آج سے چالیس سال پہلے ـ‘‘دردکا سفر’’ شروع ہوا تھایہ سفر اب بھی جاری وساری ہے،اس سفر میں قدم قدم پر درد اور دکھ ہے۔لوگ بھی وہی ہیں،معاشرہ بھی وہی ہے لوگوں کی باتیں بھی وہی ہیں لیکن جب عزم بلند ہوتو کوہ ہمالیہ جیسے اونچے پہاڑ بھی راستہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ان شا ء اللہ آخری دم تک زندگی کی جدوجہد اور یہ سفر جاری رہے گا۔ یہ دنیا اچھے انسانوں سے خالی نہیں میری زندگی میں بہت سے اچھے لوگ بھی آئے ہیں، بعض تو اتنے اچھے تھے کہ انسان کی شکل میں فرشتے معلوم ہوتے تھے ایسے ہی لوگو ں کے دم قدم سے یہ دنیا آباد ہے۔ آپ کو کتاب میں کئی جگہوں پر ایسے لوگوں کا تذکرہ بھی ملے گا۔ زیرِ نظر کتاب ‘‘ درد کا سفر ’’ کی ضخامت کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے اس لئے ابھی کچھ موضوعات رہ گئے ہیں جو شامل نہیں ہوسکے خاص طور پرویل چیئر پرباون ممالک کا سفرایک بہت ہی طویل موضوع ہے پہلے اس کتاب میں اس سفر کا دس فیصد حصہ شامل کیا گیاتھالیکن کتاب کے صفحات بڑھ جانے کی وجہ سے اوراس خدشے کے پیش نظر کہ یہ کتاب محض ایک سفر نامہ ہی بن کر نہ رہ جائے ،ان ملکوں کے سفر کومجبوراً کتاب سے نکالنا پڑا،میں نے ویل چیئر پر باون ملکوں کا سفر کیا ہے جو الحمدللہ ورلڈریکارڈ ہے،ان ملکوں کے اسفار اپنے اندر بے پناہ معلومات اورحیرت انگیز مشاہدات کاخزانہ لئے ہوئے ہیں۔ ان کے لئے الگ سے ایک خوبصورت ااور دلچسپ سفرنامہ ترتیب دے رہا ہوں ۔ان ملکوں کے احوا ل آئندہ آنے والے اس سفرنامے یا درد کا سفر کی دوسری جلد (پارٹ ٹو)میں شامل کئے جائٰیں گے۔یہ کتاب بھی ان شا ء اللہ بہت جلد آپ کے سامنے ہوگی۔
جن احباب نے ‘‘دردکا سفر’’ کے حوالے سے اپنے قیمتی تبصروں اور خیالات کا اظہار کیامیں ان کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اورکتاب کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں جن ساتھیوں نے معاونت کی خاص طورپر امتیاز احمد انجم صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے بھرپور تعاون سے یہ مشکل کام ممکن ہوسکااوراپنے پیارے بیٹوں طلحہ اورریان کا بھی Thanks Very Much جنہوں نے دلچسپی اور شوق سے اس کام میں میرا ساتھ دیا۔ آپ زندگی میں کہیں نہ کہیں کسی معذور انسان کو ضرور دیکھتے ہوں گے لیکن اس معاشرے میں اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے وہ کس طرح زندہ رہتا ہے اس بارے میں شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں۔‘‘دردکا سفر’’ اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے کہ اس میں آپ جان سکیں گے کہ اگرکوئی شخص کسی معذوری کاشکار ہے تو وہ اپنی مرضی سے نہیں ہے اور اس کے پیچھے کس قدر دکھ بھری کہانی ہے اور وہ کس طرح معاشرے کی سنگینیوں کا سامنا کرتا ہے۔میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں اب آگے کے واقعات جاننے کے لئے آپ میرے ہم قدم درد کے سفر پر چلیں گے خدا نہ کرے آپ میں سے کسی کو کبھی اس طرح کادرد ملے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ درد کی سچی اور کڑوی کہانی ہے…… مگر اس میں عزم ،حوصلہ اور ولولہ بھی موجود ہے آیئے ملاحٖظہ کیجئے……
امجد صدیقی